جسم  پر مٹی ملیں  گے  پاک  ہو جائیں گے ہم    

اے زمین اک دن تیری خوراک ہو جائیں گے ہم

تعزیتی تحریر لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ تعزیت،ایک طرح کے الوداعی الفاظ ہیں اور ہماری زبان رسمی  و الوداعی الفاظ سے بھری پڑی ہے ۔  لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ کوئی ظلم بھی نہیں کہ سب لوگوں کی موت پر ایک جیسے رسمی الفاظ لکھے جائیں۔ میں کاپی پیسٹ کو اچھا نہیں سمجھتا ہمیں اپنے الفاظ میں اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہیے۔

مانا کہ موت زندگی کا خاتمہ ہے مگر ہر شخص اپنے انداز میں زندگی بسر کرتا ہے ،اس لیے اس کی موت بھی اس کے اپنے انداز کی ہوتی ہے۔ اس کے لیے تعزیتی تحریر بھی اس کی منفرد زندگی اور اس کی موت کا جداگانہ اسلوب کے شایان شان ہونی چاہیے۔

پروفیسر ڈاکٹر فیاض الحسن ساہی کی وفات انکے جداگانہ اسلوب حیات اور ایک بہترین استاد اور ماہر زراعت ہونے کی ایک قیمت ہے۔ بھاری قیمت ، جو ہم کو چکانی پڑی ہے,جان سے زیادہ کیا چیز بھاری ہوسکتی ہے!

انکے ایک نامور ماہر زراعت ہونے پہ تو پروفیسر اور ریسرچر حضرات زیادہ احسن گفتگو کر سکتے ہیں۔ میں نے تو  انکو ایک بہترین اور کامیاب انسان کے طور پہ جانا، ایک بہترین استاد، ایک شفیق باپ کے روپ میں دیکھا، ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا میں نے دیکھا کہ آپ  نے زندگی کو رکنے نہیں دی ، مسلسل  کام کرتے رہنے کے عادی تھے، آپ نے اپنا ایک ایک منٹ شمار کیا ہوتا تھا، وقت کا بھر پور استعمال کرتے تھے،  آپ نے حاضر سروس اور ریٹائرمنٹ کے فرق کو مٹادیا تھا۔ مجھ سے ہمیشہ رابطے میں رہتے اور اسی طرح ہدایات جاری کرتے جیسے دوران سروس کیا کرتے تھے۔ وہ گئے نہیں تھے واقعی موجود تھے اور ہم فیکلٹی آف ایگریکلچر کے ڈین آفس والوں کو بعد از ریٹائرمنٹ بھی انکا ہونا شدت سے محسوس ہوتا تھا، اب بھی اکثر یہ ہوتا کہ میں صبح دفتر آتا تو مجھ سے پہلے وہ ایک دو لیٹر لکھ کر میری میز پہ چھوڑ گئے ہوتے تھے۔

ایک بڑی شخصیت اور ایک بڑے عہدے پہ فائز ہونے کے باوجود سادگی انتہا کی تھی اکثر سرکاری گاڑی کھڑی رہتی اور کسی کے ساتھ بھی بائیک پہ بیٹھ کر نکل جاتے تھے۔ کئ بار دوسرے اداروں میں میٹنگ کے لئیے بھی بائیک پر پہنچ جاتے۔ بہت سادہ لباس پہنتے تھے۔ خاص بنو اور عام رہو کے فلسفے کے قائل تھے۔ ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب بطور وائس چانسلر لاہور ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے سکائی ویز بس سروس سے نکل گئے مجھے معلوم ہوا تو میں نے فون کیا کہ سرکاری گاڑی بھجواوں تو کہنے لگے کہ ایک بندے کے لئیے سرکاری وسائل کیوں ضائع کئیے جائیں میں بس پر آونگا اور اڈے سے فون کرونگا کوئی بھی سیکیورٹی گارڈ مجھے بائیک پہ لیجائے گا۔

دفتر میں استعمال شدہ کاغذات کی پشت پہ نوٹنگ کر کے سٹاف کو ٹائپنگ کے لئیے دیتے تھے تا کہ نیا کاغذ ضائع نہ ہو۔ یونیورسٹی میں واک کے دوران پورا جائزہ لیتے اور متعلقہ شعبوں کو بتاتے کہ فلاں جگہ پودا گر رہا ہے اسکو سپورٹ سے کھڑا کریں۔ فلاں جگہ لائٹ خراب ہے، واٹر تلاب سے کچرا نکالیں الغرض انہیں ہر چیز سے آگاہی اور فکرمندی ہوتی تھی۔

میں ذرا حساس دل ہوں کسی کو دنیا سے جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا پھر فیاض الحسن ساہی صاحب کو جاتا دیکھنا میرے لئیے بہت تکلیف دہ تھا ، مگر  یہ ہو چکا تھا اور اسی ہونے  کو خدائی امر کہتے ہیں۔

میرا ماننا ہے کہ ایرڈ یونیورسٹی میرا اصل گھر ہے میں بیس برس کی عمر میں یہاں آیا تھا آج انچاس برس کا ہوں۔ یہاں بسنے والے سب میرے اپنے ہیں تو انکے دکھ درد اور رنج و غم ایک عام آدمی کی نسبت زیادہ محسوس کرتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں خود کے ساتھ ہوئی نا انصافیوں کو بھی جلد بھول جاتا ہوں اور تکلیف دینے والوں کا غم بھی شدت سے محسوس کرتا ہوں۔

اس فن زندگی میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ہم سب کی توقعات پہ پورا اتر سکیں ، کبھی دوران ملازمت غلط فیصلے بھی ہو جاتے ہیں، کبھی کبھار نا چاہتے ہوئے بھی ہمارے قلمدان اور زبان کسی کی دل آزاری کا باعث بن جاتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں گزری باتوں کو دل میں نہ رکھا جائے اور مرنے والے کے ساتھ احسان یہی ہے کہ اسکی لغزشوں کو بھلا دیا جائے اور اسکی اچھائیوں کو یاد رکھ کہ اسکی روح کے لئیے تسکین کا سامان کیا جائے کہ جانے والا تو اب اس دنیا میں کبھی واپس نہیں آ سکے گا  بلکہ اب تو ہم کو اک روز وہاں جانا ہے جہاں سے پھر کبھی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔

انسانی سماجی دنیا کی سیاہی و سفیدی نہ تو فطرت کی منشا ہے نہ  عام انسانوں کی کجیوں کوتاہیوں کا نتیجہ ہے ۔سماج کے بڑے حصے کو تاریک اور ننھے سے حصے کو روشن  بہت سوچ سمجھ کر رکھا گیا ہے۔ جس نے یہ تقسیم کی ہے ، اسی نے روشنی و سیاہی کے مطالب  پر اجارہ بھی قائم کیا ہے۔ وہ اس اجارے سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا۔وہ اس پر سوال کی اجازت دینے کا روادار بھی نہیں۔

ہمارے زمانے کی دو بڑی جنگیں یہی ہیں۔ باہر کی جگہوں اور انسانوں کے اندر کی جگہوں پر اجارے کی جنگیں۔

ڈاکٹر فیاض الحسن ساہی صاحب ان دونوں جنگوں کے سپاہی تھے۔ ان کے پاس سب سے مہلک ہتھیار تھا:  دوسروں کو عزت و تکریم دینا۔  وہ اس ہتھیار کے ہلاکت خیز استعمال کا ہنر بھی جانتے تھے۔ وہ اس ہتھیار سے مخالفین کے دل بھی جیت لیا کرتے تھے۔ وہ اپنے ملازمین،  نائب قاصدوں کو بھی ” صاحب ” کہہ کر پکارتے تھے چونکہ انکا تعلق اس مادر علمی سے بہت پرانا تھا تو وہ سب سینئیرز ساتھیوں کو جانتے تھے،  یاد کرتے تھے اور ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ بھی رکھتے تھے۔

ان کی گفتگو لوگوں کے زخموں پر مرہم بھی رکھتی تھی اور زخم لگانے والوں کے خلاف شدت جذبات کو کم بھی کرتی تھی۔ فیاض الحسن ساہی جنگ ہار سکتا تھا،  مگر دل جیتنے کا ہنر جانتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انکی وفات پہ ہر آنکھ اشکبار تھی اور سب دل گرفتہ ہوئے، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا جنازے میں شرکت کرنا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ شخص کتنا ہر دل عزیز تھا۔ اور مجھے تو انکے آخری دیدار میں انکے چہرے پہ مکمل اطمینان دکھائی دیتا تھا۔

مذہبی حوالے سے دیکھتا ہوں تو آپ باقاعدہ پانچ وقت کے باجماعت پڑھنے والے نمازی تھے ۔ جو اکیلا نماز پڑھتا ہے وہ مسلمان اور جو نماز قائم کرئے وہ مومن کہلاتا ہے چاشت اور اشراق کی نمازیں بھی ادا کرتے تھے، ڈاکٹر اسرار الحق مرحوم کے فین تھے انکے خطاب اکثر سنتے تھے۔ مدرسہ فیض السلام میں یتیموں کی کفالت اور تعلیم کے لئیے اپنا کردار ادا کرتے رہے اور باقاعدگی سے حاضری لگواتے رہے۔ آپکے کوئی نرینہ اولاد نہ تھی مگر اپنی بیٹیوں اور داماد سے بہت لگاؤ رکھتے تھے اور انکے بہتر مستقبل کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے بالخصوص اپنی چھوٹی بیٹی کو میڈیکل میں ایڈمشن دلوایا اور انکو ڈاکٹر بنانے کے خواہاں تھے۔

تاریخ تو تاریخ ہے اور وہ یاد رکھتی ہے، پروفیسر فیاض الحسن صاحب کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔  میں اپنے اور اپنے ساتھیوں کی جانب سے انکی اگلی منزلوں کی کامیابی کے لئیے دعا گو ہوں اور ہم سب انکے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہیں اللہ تعالی آپکو صبر دے اور یہ نا تلافی نقصان برداشت کرنے کی ہمت و حوصلہ دے کہ در اصل یہ صدمہ سب سے زیادہ آپکو ہی برداشت کرنا ہے۔ میں اپنے اس تعزیتی مقالہ کو اس شعر کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ !

بچھڑ کہ بھی تو میرے ساتھ تم نے رہنا تھا

کسی خیال کی صورت کسی گماں کی طرح

الوداع: ڈاکٹر فیاض الحسن صاحب!!

عنصر محمود اعوان

سپرنٹنڈنٹ فیکلٹی آف ایگریکلچر

بارانی ایگریکلچر یونیورسٹی راولپنڈی

16 جنوری 2025۔

 

 

 

Leave A Comment

Recommended Posts

انتقال پر ملال

abidafarheen

انا للہ و انا الیہ راجعون نہایت افسوس کے ساتھ اطلاع دی جاتی ہے کہ پروفیسر (ریٹائرڈ) ڈاکٹر فیاض الحسن ساہی (سابق ڈین ایگریکلچر) اور اس جرنل کے چیئر مین 14 جنوری 2024کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔ان کی تمام خدمات […]

1