(وائس چانسلر(ر) ایرڈ یونیورسٹی)
ڈاکٹر محمد آفتاب خان
پروفیسر(ر)زرعی یونیورسٹی فیصل آباد
تو نے وہ گنج ہائے گرا نما یہ کیا کئے؟ | مقدور ہو تو خاک سے پوچھو ں کہ اے لئیم |
موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ کسی ذی روح کو اس سے انکار نہیں جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن ضرور مرنا ہے ” کل من علیہا فان ”۔تاہم چند اموات ایسی ہوتی ہیں کہ یقین کرنے پر بھی دل و دماغ آمادہ نہیں ہوتے ، اگرچہ ڈاکٹر فیاض الحسن ساہی کی بیماری کا سن کر ان کے ڈاکٹرز کی ہدایت کے مطابق ہسپتال نہ جا سکا تا ہم گھر آنے اور اجازت ملنے کے بعدعیادت کے لیے گیا تو باوجود منع کرنے کے روایتی وضع داری کے تحت بستر سے اٹھ کر آئے ۱۵،۱۰منٹ عیادت اور دعاؤں کے بعد واپسی ہوئی ۔ابھی اس واقعے کو ۳۰ /۳۵ گھنٹے گزرے ہی تھے کہ عشاء کی نماز پڑھتے ہوئے گھنٹی بجی ،اہلیہ نے ٹیلی فون اٹھایا تو خاموشی سے باہر نکل گئیں اور چند لمحات کے بعدڈاکٹر بیٹی کے ہمراہ اندر آ ئیں ،اس اثنا میں میں نے نماز ختم کر لی تھی کہ ان کے چہرے کی ہوائیاں دیکھ کر کسی بری خبر کا اندازہ ہوا لیکن دھیان ساہی صاحب کی طرف نہ گیا کہ ابھی تو دیکھ کر آیا تھا۔
بوئے گل سیر نہ دیدندکہ بہار آخر شد | ہیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد |
امت محمدیہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے اللہ تعالی کا ایک بہت بڑا انعام ہے کہ بڑے سے بڑے حادثہ اور سانحہ سے دل و دماغ کو حالت سکون میں لانے کے لیے ایک نسخہ کیمیا دیا “جو انا للہ وانا الیہ راجعون “کی صورت میں عطا ہوا ہے ۔اس کا ورد کرتے ہی گویا کہ اضطراب اور پریشانی کی کیفیت دور ہو جاتی ہے۔
یارب توکریمی ورسول تو کریم صد شکر کہ ہستیم میان دو کریم
پتہ چلا کہ ان کو دفنانے کے لیے اپنے آبائی گاؤں جہلم میں لے گئے ہیں ۔اپنے گھٹنوں کی تکلیف کے باعث آخری وقت کندھا
بھی نہ دے سکا۔
د ل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کےرہ گئی | شام بھی تھی دھواں دھواں دل بھی تھا ادا اداس |
اپنے نہایت قابل ،ایماندار مخلص اورمتدین بھائی کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات کی روئیداد۳۰ سے ۳۵ سال پر محیط ہے
جب میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں زرعی سائنس دانوں کی ایک تنظیم پاس فورم کا جنرل سیکرٹری تھا اور ڈاکٹر ساہی صاحب ایرڈ یونیورسٹی میں تعلیم و تحقیق میں مصروف عمل تھے۔ ۱۹۹۹میں اپنی ریٹائرمنٹ کے ساتھ راولپنڈی میں قیام کے بعد تو گویا ملاقاتیں ایک معمول بن گئیں اور ان کی حیات مستعار کے بہت سے پہلو آشکار ہوئے۔
انہوں نے اپنی زندگی ایک کڑے ضابطے اور شیڈول کے مطابق گزاری ،مجھے یہ جان کر بہت حیرت ہوئی کہ عصر سے مغرب تک وہ نہایت پابندی کے ساتھ سیر کرتے تھے ،گویا کہ یونیورسٹی کی مجموعی فضا اور حالات کا ذاتی طور پر جائزہ ہوتا تھا،نہ کہ ہر چوکیدار اور دیگر لوگوں کی اطلاعات کے بھروسے پر احکام دیتے ، ریٹائرمنٹ کے بعد ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کاحسن نظر کہ زرعی علوم کی تحقیق کے شعبے میں پروفیسر ڈاکٹر فیاض الحسن ساہی کو سربراہ شعبہ بنا کر ان کی معیت میں ڈاکٹر عبدالغفار جیسے جواں ہمت انتھک کارکن اور نہایت قابل سائنسدان کو بمعہ دیگر عملہ فراہم کیا جو ایک منصوبے کے تحت اس شعبے کے نصابی کورسز کو دور حاضر کے مطابق کرنے میں ہمہ تن مصروف عمل رہے۔
۱۹۹۹میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں پاس فورم کی جانب سے مجھے ایک سہ ماہی تحقیقی رسالہ کی اشاعت کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ اپنی نوکری کے دوران محکمانہ طور پر کچھ عرصہ ز رعی جنرلزم کی عملی تربیت لاہور میں محکمہ زراعت کے شعبہ اطلاعات سے لی تھی جو اس کام آئی ۔ یہ وہ وقت تھا جب حکومت پنجاب کی جانب سے ایک تحقیقی رسالہ زراعت کے شعبے سے متعلق شائع ہوتا تھا جس میں ڈائریکٹرز اور بڑے آفیسرز کے مقالہ جات ہی شائع ہوتے تھے جبکہ جونیئر سائنسدانوں کے مقالہ جات شائع نہیں ہوتے تھے۔
جنوری ۱۹۹۹ میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یہ رسالہ پاس فورم راولپنڈی سے ۲۰۰۳تک شائع کرتا ر ہا تاہم ان دنوں میں اپنی ایک کتاب کی آخری تیاریوں میں مصروف تھا تو میں تنظیم کے سر پرست اور صدر پروفیسر ڈاکٹر ابرار حسین گیلانی کے مشورے سے اس کی اشاعت کا کام عزیزان پروفیسر ڈاکٹر حافظ عبداللہ اور پروفیسر ڈاکٹر خالد جاوید کو سونپ کر فارغ ہو گیا ۔ان دونوں حضرات کو ساہی صاحب کی بہترین رہنماٗی حاصل رہی۔ ۲۰۲۰ تک ان کی رہنمائی میں اس رسالے کو ان حضرات نےبام عروج تک پہنچایا۔
یہ رسالہ اب تک تقریبا ۳۵ برس کی بہاریں دیکھ چکا ہےاپنی کار کردگی اور اپنی باقاعدگی کی وجہ سے،نہ صرف ہائر ایجوکیشن کمیشن کی شرائط پہ پورا اترنے بلکہ عالمی میعار کو بھی پورا کرنے کی بناء پر ،اب یہ رسالہ ہردو ماہ بعد آن لائن شائع ہو رہا ہے ،اس میں نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک سے بھی مقالہ جات شائع ہو رہے ہیں ، واضح رہے کہ موجودہ دور میں ایم ایس سی اور پی ایچ ڈی ڈگری کی منظوری کے لیے مقالہ جات کے اشاعت کے لازم ہونے سے اگر ہزاروں نہیں توسیکڑوں افراد کو ملکی اور غیر ملکی سطح پر پرموشن ، اعلی مدارج اورمشاہروں میں اضافے کے ذریعے اللہ کی مخلوق کے معاشی،سماجی علمی اور تحقیق کےمنازل کے حصول میں یہ رسالہ معاون ثابت ہوا ہے ،ذالک فضل اللہ من یشاء۔
دسمبرمیں۲۰۲۰میں اس رسالے کی انتظامیہ کا ایک اجلاس پنجاب یونیورسٹی لاہور میں منعقد ہونا طے پایا ، جس میں مجھے بھی حاضری کا موقع ملا ،اوریہ جان کر خوشی ہوئی کہ یہ رسالہ اب دیجیٹل ہوگیا ہے اور ہر دو ماہ بعد شائع ہوتا ہے ۔ میٹنگ میں بین الاقوامی سطح پہ اشاعت کی دل کھول کر تحسین کی وہاں توجہ بھی دلائی کہ یہ رسالہ ہمارے پاس ایک امانت ہے اور ہمیں اسے ان ہی کاموں اور مقاصد کے لیے ہی صرف کرنا چاہیے جو اس تنظیم کے مقاصد ہیں یعنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔کسانوں کی تعلیم و تربیت نہ صرف ان کے روز مرہ زرعی امور میں بلکہ ان کی دینی اخلاقی حالت ، صحت و سلامتی اور سماجی بھلائی کے کاموں کے لیے بھی رہنمائی کی جائے۔
۔نیز یہ بھی طے پایا کہ اس رسالہ کی نہج پر ایک رسالہ سوشل سائنسز کے میدان میں بھی نکالا جا ئے تاکہ اس میدان کے جن اساتذہ ، ریسرچرز ،ہونہار طلبہ و طالبات اور جونیئر اساتذہ اور محققین کی صلاحیتیں منظر عام پر نہیں آرہی ہیں وہاں ان کے لئے بھی ایک رسالہ ہو، تاکہ وہ بھی اپنے مقالہ جات کو عالمی پیمانے پر پیش کرسکیں اور ملک و ملت کا نام روشن کر سکیں،اورایم ایس سی، پی ایچ ڈی کے بعد ایسے لوگوں کو پرموشن اور ترقی کے امکانات سے بھی فائدہ حاصل ہو۔
پروفیسر ڈاکٹر فیاض الحسن نے اس بات کی بھرپور تائید کی اور اس کام کے لیے موجودہ صدر فورم ڈاکٹر عبدالوکیل صاحب نے پروفیسر ساہی کی سرپرستی میں ایک کمیٹی قائم کی جسے اس کام کو سونپا گیا ، اس کمیٹی نے ساہی صاحب کی سرپرستی میں ہوم ورک کیا اور بالاخر ۲۰۲۳میں اس رسالے کی پہلی اشاعت ہوئی اور اس کا افتتاح ہاءیئرایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کے آڈیٹوریم میں ہوا جس میں سو کے لگ بھگ اساتذہ ریسرچرز نہ صرف اسلام آباد بلکہ دیگرشہروں سے بھی تشریف لائے۔
اس تمام تر کامیابی کے پیچھے مرحوم پروفیسر ساہی صاحب کی مدد رہنمائی اور تعاون شامل رہااس ضمن میں ایک اور امر بھی قابل ذکر ہے کہ مالی معاملات کی دیکھ بھال اور ان کو مناسب انداز میں چلانا ایک بہت اہم معاملہ ہوتا ہے جسے انہوں نے نہایت خوبی اور احسن طریقے سے چلایا ، وہ ایک بڑے سے فائل کور میں وہ تمام رسیدات نہایت ترتیب کے ساتھ جمع کرتے جاتے تھے۔ اسی وجہ سےبعداز وفات وہ تمام کاغذات ان کے بعد آنے والے صاحب کے لیے ذرا بھی پریشانی کا باعث نہیں بنے۔یقینا یہ کام ایسا شخص ہی سر انجام دے سکتا ہے جسے اس قسم کے مال یتیم کی حفاظت کرنے کے بارے میں اللہ کے احکامات کا شعور اور فہم و ادراک ہو۔
مرحوم بھائی فیاض الحسن صاحب کی زندگی کے دیگر بے شمار پہلو ایسے ہیں جن پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے ااور پاس فورم کا فرض تھا کہ اپنے ایک نہایت قابل ساتھی کی یاد میں تعزیتی اجلاس کرتے مگر وہ تو نہ ہوا البتہ ایرڈ یونیورسٹی میں ان کی یاد میں ایک اجلاس ہوا جس میں ان کی خدمات جلیلہ تعلیم و تحقیق اور یونیورسٹی کی وہ خدمات جو انہوں نے سر انجام دی تھیں اس پہ روشنی ڈالی گئی ۔
یہاں ہم اپنے افسوس اور کرب کا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری معلومات کی حد تک ان کا انتخاب بطور چیئرمین سائنس فاؤنڈیشن ہوگیاتھا ۔ایک طویل عرصے کے بعد اس منصب پر پہلی مرتبہ یونیورسٹی فیصل آباد کے اولین وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر علی ہاشمی کو تعینات کیا گیا بعد ازاں سیاسی بنیادوں پر چند سفارشی لوگوں کو موقع ملا، بہرحال ایک طویل عرصے بعد ایک حقیقی سائنسدان کا انتخاب عمل میں آیا تھا لیکن ہمارے ملکی حالات اور بیورو کریسی نیز سیاسی لوگوں کی نااہلی کہ یہ کیس ڈیڑھ دو ماہ تک اقتدار کی راہداریوں میں مختلف میزوں پر لڑھکتا رہا ۔بیورو کریسی نےیہ سیاہی بھی اپنے منہ پر مل ڈالی ۔ میں نے اس موضوع پربرسبیل تذکرہ بات کی تو انہوں نے کمال بے نیازی سے اللہ تبارک کے فیصلے پر اپنے دل اطمینان اظہار کیا۔
انہی کاکام ہے یہ حوصلے ہیں جن کے ذیاد | مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں |
ضرورت ہے کہ ایرڈ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سینڈی کیٹ پروفیسر ڈاکٹر فیاض الحسن ساہی کی خدمات جلیلہ جو انہوں نے علم و اگہی اور امت مسلمہ کی نوجوان نسل کو تربیت دینے میں کی تھی ان کے پیش نظر کسی بڑے سول ایوارڈ کے لیے کم از کم اتنی کوشش ضرورکریں جتنی کوشش کوئی شخص اپنی پرموشن ،وائس چانسلر/ پروفیسر بننے کے لیے کرتا ہے۔
سبزہء نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے | آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے |